Deal of Heaven Palace
حضرتِ سَیِّدُنَا مالِک بن دِینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار ایک بار بصرہ کے ایک مَحَلّے میں ایک زیرِ تعمیر عالیشان محل کے اندر داخِل ہوئے، کیا دیکھتے ہیں کہ ایک حَسین نوجوان مزدوروں ، مستریوں اور کام کرنے والوں کو بڑے اِنہماک (اِن۔ہِ۔مَاک) کے ساتھ ہر ہر کام کی ہدایت دے رہا ہے۔ حضرتِ سَیِّدُنَا مالِک بن دِینارعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار نے اپنے رفیق حضرت سَیِّدُنَا جعفر بن سلیمان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان سے فرمایا: ’’ مُلاحَظہ فرمائیے یہ نوجوان محل کی تعمیر وتَزئین (یعنی زیب و زینت) کے مُعامَلے میں کس قَدَر دِلچسپی رکھتا ہے مجھے اِس کے حال پر رحم آ رہا ہے میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالٰی سے دُعا کروں کہ اِسے اِس حال سے نَجات دے، کیا عَجب کہ یہ جوانانِ جنّت سے ہو جائے ۔ ‘‘ یہ فرما کر حضرتِ سَیِّدُنَا مالِک بن دِینار علیہ رَحمَۃُ اللہ الغفّار، حضرتسَیِّدُنَا جعفر بن سلیمان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان کے ساتھ اُس کے پاس تشریف لے گئے، سلام کیا ۔ اُس نے آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو نہ پہچانا۔ جب تعارُف ہوا توآ پ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی خوب عزّت و توقیر کی اور تشریف آوری کا مقصد دریافت کیا۔ حضرتِ سَیِّدُنَا مالِک بن دِینارعلیہ رَحمَۃُ اللہ الغفّارنے (اُس نوجوان پر اِنفرادی کوشش کا آغاز کرتے ہوئے) فرمایا: آپ اِ س عالیشان مکان پر کتنی رقم خرچ کرنے کا اِرادہ رکھتے ہیں ؟ نوجوان نے عرض کی : ایک لاکھ دِرہم ۔حضرتِ سَیِّدُنَا مالِک بن دِینار علیہ رَحمَۃُ اللہ الغفّار نے فرمایا : اگر یہ رقم آپ مجھے دے دیں تو میں آپ کے لئے ایک ایسے عالیشان محل کی ضمانت لیتا ہوں ، جو اِس سے زیادہ خوبصورت اور پائیدار ہے۔ اُس کی مِٹّی مُشک و زَعفران کی ہو گی، وہ کبھی مُنہدِم (مُن۔ہَ۔دِم) نہ ہو گا اور صرف مَحل ہی نہیں بلکہ اُس کے ساتھ خادِم، خادِمائیں اور سُرخ یاقوت کے قُبّے، نہایت شاندار اور حسین خَیمے وغیرہ بھی ہوں گے اور اُس محل کو معماروں نے نہیں بنایا بلکہ وہ صرف اللہ تعالٰی کے کُن (یعنی ہو جا) کہنے سے بنا ہے ۔ نوجوان نے جواباً عرض کی: مجھے اِس بارے میں ایک شب غور کرنے کی مُہلَت (مُہ۔لَت) عِنایت فرمائیے۔حضرتِ سَیِّدُنَامالِک بن دِینار علیہ رَحمَۃُ اللہ الغفّارنے فرمایا : بَہُت بہتر ۔
اِس مکالمے (مُکا۔لَ۔مے) کے بعد یہ حضرات وہاں سے چلے آئے ، حضرتِ سَیِّدُنَا مالِک بن دِینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار کو رات میں بار بار اُس نوجوان کا خیال آتا رہا اور آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اُس کے حق میں دُعائے خیر فرماتے رہے۔ صبح کے وقت پھر اُ س جانب تشریف لے گئے تو نوجوان کو اپنے دروازے پر مُنتظر پایا۔ نوجوان نے بڑے پُر تپاک طریقے سے اِستقبال کرتے ہوئے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ میں عرض کی: کیا آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو کل کی بات یاد ہے ؟ حضرتِ سَیِّدُنَا مالِک بن دِینارعلیہ رَحمَۃُ اللہ الغفّارنے ارشاد فرمایا : کیوں نہیں ! تو نوجوا ن ایک لاکھ دَراہِم کی تھیلیاں حضرتِ سَیِّدُنَا مالِک بن دِینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار کے حوالے کرتے ہوئے عرض گزار ہوا کہ یہ رہی میری پُونجی اور یہ حاضِر ہیں قلم، دوات اور کاغذ ۔
حضرتِ سَیِّدُنَا مالِک بن دِینارعلیہ رَحمَۃُ اللہ الغفّارنے کاغذ اور قلم ہاتھ میں لے کر اِس مضمون کا بَیع نامہ تحریر فرمایا: ’’ بِسْمِ اللہ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم یہ تحریر اِس غَرَض کے لئے ہے کہ (حضرتِ سَیِّدُنا ) مالِک بن دِینار (عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار ) فُلاں بن فُلاں کے لیے اِس کے دنیوی مکان کے عِوض (ع۔وَض) اللہ تعالٰی سے ایک ایسے ہی شاندار محل دِلانے کا ضامن ہے اور اگر اِس محل میں مزید کچھ اور بھی ہو تو اللہ تعالٰی کا فضل ہے۔ اِس ایک لاکھ دِرہم کے بدلے میں مَیں نے ایک جنّتی محل کا سودا فُلاں بن فُلاں کے لیے کر لیا ہے، جو اِس کے دُنیوی مکان سے زیادہ وسیع اور شاندار ہے اور وہ جنّتی محل قُربِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ کے سائے میں ہے ۔ ‘‘
حضرتِ سَیِّدُنَا مالِک بن دِینارعلیہ رَحمَۃُ اللہ الغفّارنے یہ تحریر لکھ کر بَیع نامہ نوجوان کے حوالے کر کے ایک لاکھ دِراہِم شام سے پہلے پہلے فُقراء و مساکین میں تقسیم فرما دئیے۔ اِس عظیم عہد نامے کو لکھے ہوئے ابھی40 روز بھی نہ گُزرے تھے کہ نَمازِ فجر کے بعد مسجِد سے نکلتے ہوئے حضرتِ سیِّدُنا مالِک بن دِینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار کی نگاہ محرابِ مسجد پر پڑی، کیا دیکھتے ہیں کہ اُس نوجوان کے لئے لکھا ہوا وُہی کاغذ وہاں رکھا ہے اور اُس کی پُشت پر بِغیر سِیاہی کے یہ تحریر چمک رہی تھی: ’’ اللہ عَزِیزٌ حَکِیْم عَزَّ وَجَلَّ کی جانب سے مالِک بن دِینار کے لئے پروانۂ بَراء َت ہے کہ تُم نے جِس محل کے لیے ہمارے نام سے ضَمانت لی تھی وہ ہم نے اُس نوجوان کو عطا فرما دیا بلکہ اِس سے70 گُنا زیادہ نوازا۔ ‘‘
حضرتِ سَیِّدُنَا مالِک بن دِینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار اِس تحریر کو لے کر بَعُجلت (یعنی جلدی سے) نوجوان کے مکان پر تشریف لے گئے ، وہاں سے آہ و فُغاں کاشور بُلند ہو رہا تھا۔پوچھنے پر بتایا گیا کہ وہ نوجوان کل فوت ہو گیا ہے۔ غَسّال نے بیان دیا کہ اُس نوجوان نے مجھے اپنے پاس بُلایا اور وصیَّت کی کہ میری میِّت کو تُم غسل دینا اور ایک کاغذ مجھے کفن کے اندر رکھنے کی وصیَّت کی۔ چُنانچِہ حسبِ وصیَّت اُس کی تدفین کی گئی۔ حضرتِ سَیِّدُنَا مالِک بن دِینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار نے محرابِ مسجد سے مِلا ہوا کاغذ غَسّال کو دِکھایا تو وہ بے اِختیار پُکار اُٹھا: وَاللہ الْعَظِیْم یہ تو وُہی کاغذ ہے جو میں نے کفن میں رکھا تھا۔ یہ ماجرا دیکھ کر ایک شخص نے حضرتِ سَیِّدُنَا مالک بن دِینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار کی خدمت میں 2 لاکھ دِرہم کے عِوض ضمانت نامہ لکھنے کی اِلتجا ء کی تو فرمایا: ’’ جو ہونا تھا وہ ہو چکا، اللہ عَزَّ وَجَلَّ جس کے ساتھ جو چاہتا ہے کرتا ہے ‘‘ ۔ حضرتِ سَیِّدُنَا مالِک بن دِینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار اُس مرحوم نوجوان کو یاد کر کے اَشک باری فرماتے رہے۔‘‘ (روضُ الرّیاحین، ص ۵۸۔۵۹ دارالکتب العلمیۃ بیروت ) اللہ رَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
حضرتِ سَیِّدُنَا مالِک بن دِینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار حضرتِ سَیِّدُنَا حسن بصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْغَنِی کے ہم عصر تھے۔ آپ نے مُلاحَظہ (مُ۔لا۔حَ۔ظَہ) فرمایا کہ پروردگارجَلَّ جلالہٗ نے آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو کتنا اِختیار عطا فرمایا کہ آپ نے دُنیوی مکان کے عِوض جنّتی محل کا سودا فرما لیا۔ واقعی اللہ رحمٰن عَزَّ وَجَلَّ کے ولیوں کی بَہُت بڑی شان ہوتی ہے۔ شانِ اولیاء سمجھنے کے لیے یہ حدیثِ پاک مُلاحَظہ فرمائیے چُنانچِہ سَیِّدُ الانبِیاء ِ وَالْمُرسَلِیْن ، رَاحتُ الْعَاشقین، جنابِ صَادِق واَمِین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ دِلنشین ہے: ’’ تھوڑا سا رِیا بھی شِرک ہے اورجو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ولی سے دُشمنی کرے وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے لڑائی کرتا ہے، اللہ تعالٰی نیکوں ، پرہیزگاروں ، چھپے ہوؤں کو دوست رکھتا ہے کہ غائب ہوں تو ڈھونڈے نہ جائیں ، حاضِر ہوں تو بُلائے نہ جائیں ا ور اُن کو نزدیک نہ کیا جائے، اُن کے دِل ہدایت کے چَراغ ہوں ، ہر تاریک گرد آلود سے نکلیں ۔ (مِشْکَاۃُ الْمَصَابِیح ج۲، ص۲۶۹، حدیث۵۳۲۸، دارالکتب العلمیۃ بیروت )
معلوم ہوا کہ بارگاہِ خداوندی عَزَّ وَجَلَّ میں مقبولیّت کا مِعیار (مِعْ۔یَار) شہرت و ناموری ہر گزنہیں بلکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں تو مُخلص بندے ہی مقبول ہوتے ہیں اگرچِہ دُنیا میں اُنہیں کوئی اپنے پاس کھڑا نہ ہونے دے، گُم ہو جائیں تو کوئی ڈھونڈنے والا نہ ہو، وفات پاجائیں توکوئی رونے والا نہ ہو، کسی محفل میں تشریف لائیں تو کوئی بھاؤ پوچھنے والا نہ ہو۔بَہَرحال ہمیں ہر پابندِ شریعت مسلمان کا اَدب و اِحترام کرنا چاہئے اور اگراَدب بَجا نہیں لا سکتے تو کم از کم اُس کی بے اَدَبی سے تو بچنا ہی چاہئے کیونکہ بعض لوگ گُدڑی کے لعل (یعنی چھپے ہوئے بُزُرگ) ہوتے ہیں اور ہمیں پتا نہیں چلتا اور بسااوقات اُن کی بے اَدَبی آدمی کو بَربادی کے عَمیق گڑھے میں گِرا دیتی ہے ۔
Comments
Post a Comment