Deserted Palace

Deserted Places on Instagram: “Abandoned palace in Portugal ...

   حضرت سَیِّدُنا جنید بغدادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی بیان فرماتے ہیں کہ میرا ایک بارکوفہ جانا ہوا، وہاں ایک سرمایہ دار کے عا لی شان محل پر نظر پڑی جس سے عیش و تنعم خوب جھلک رہاتھا، دروازے پر غلاموں کا جھرمٹ تھا اور ایک خو ش گلو کنیز یہ نغمہ اَلاپ رہی تھی:

اَ لَا یَا دَارُ لَا یَدْخُلْکِ حُزْنٌ                                    وَّلَا یَعْبَثْ بِسَاکِنِکِ الزَّمَانُ
     
یعنی اے مکان!تجھ میں کبھی غم داخِل نہ ہو اور تیرے اندر رہنے والوں کو زمانہ کبھی بھی پامال نہ کرے۔

      کچھ عرصے بعد میرا پھراُس محل سے گزر ہوا تو اُس کے دروازے پر سیاہی چھا رہی تھی ، نوکر چاکر غائِب تھے اور اُس ویران محل پر بوسیدَگی وشکستگی کے آثار نُمایاں تھے، زَبانِ حال مرورِ زمانہ کے ہاتھو ں اس کی ناپائیداری ظاہر کررہی تھی، فنا کے قلم نے اُس کی دیواروں پر آرائش وزیبائش کی جگہ بربادی وعبرت کو عبارَت کردیا تھا اور اب وہاں خوشی ومَسرَّت کے بجائے فنا کی لَے میں رنج و وَحشت کا نغمہ گونج رہا تھا! میں نے اُس محل کی وَحشت انگیز وِیرانی کے بارے میں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ سرمایہ دار مرگیا، خدام رخصت ہوگئے، بھرا گھر اُجڑ گیا، عظیم الشان محل وِیران ہوگیا، جہاں ہر وقت لوگوں کی آمَدورَفت سے رونق رَہتی تھی اب وَہاں سناٹا چھاگیا۔ حضرت سیِّدُنا جنید بغدادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی فرماتے ہیں :  میں نے اُس ویران محل کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک کنیزکی نحیف  (یعنی کمزور)  آوازآئی، میں نے اُس سے پوچھا:  اِس محل کی شان و شوکت اور اس کی چمک دمک کہاں گئی؟ اس کی روشنیاں ، اِس کے جگمگ جگمگ کرتے قمقمے کیا ہوئے؟ اور اِس میں بسنے والو ں پر کیا بیتی؟ میرے اِستِفسار پر وہ بوڑھی کنیزاشک بار ہوگئی اور اس نے ویران محل کی داستانِ غم نشان سنانا شروع کی اور کہا :  اِس کے مکین  (یعنی رہنے والے)  عارِضی طور پر یہاں رہائش پذیر تھے، ان کی تقدیر نے ان کو قصر (یعنی محل)  سے قبر میں منتقل کردیا۔ اِس ویران محل میں رہنے والے ہر فردِ خوش حال اوراس کے سارے اسباب ومال کو زَوَال لگ گیا، اور یہ کوئی نئی بات نہیں ، دنیا کا تویہی دستور ہے کہ جو بھی اس میں آتا اور خوشیوں کا گنج پاتا ہے بالآخر وہ موت کا رنج پاتا اور وِیران قبرستان میں پہنچ جاتا ہے، جو اِس دنیا سے وفا کرتا ہے یہ اُس کے ساتھ بے وَفائی ضرورکرتی ہے۔ میں نے اُس کنیز سے کہا:  ایک بار میں یہاں سے گزرا تھا تواِس کے اندر ایک کنیز یہ نغمہ گارہی تھی:

اَلَا یَا دَارُ لَا یَدْخُلْکِ حُزْنٌ                                  وَّلَا یَعْبَثْ بِسَاکِنِکِ الزَّمَانُ
     
یعنی اے مکان!تجھ میں کبھی غم نہ داخل ہواور تیرے اندر رہنے والوں کو زمانہ کبھی بھی پامال نہ کرے۔
  
 وہ کنیز بلک بلک کر رونے لگی اوربولی: وہ بد نصیب گلوکارہ میں ہی ہوں ، اِس ویران محل کے مکینوں میں سے میرے سوا اب کوئی زِندہ نہیں رہا۔ پھراُس نے ایک آہِ سرد دلِ پردرد سے کھینچ کر کہا:  افسوس ہے اُس پر جو یہ سب کچھ دیکھ کر بھی  (فانی) دنیا کے دھوکے میں مبتلا رَہتے ہوئے اپنی موت سے غافل ہو جائے ۔  (رَوْضُ الرَّیاحِین  مع اضافہ ص ۲۰۴)

’’ وِیران محل ‘‘  کی حکایت اپنے مکینوں (یعنی اِس میں رہنے والوں )  کے فنا کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُترنے کا کیسا عبرت ناک منظر پیش کر رہی ہے! آہ! وہ لوگ فانی دنیا کی آسائشوں کے باعث مسرور وشاداں ، زَوال و فنا سے بے خوف، مو ت کے تصوُّر سے بے پروا، لذاتِ دنیا میں بد مست تھے۔ اِس دارِ ناپائیدارمیں یکایک موت سے ہم کنار ہونے کے اَندیشے سے نابلد، پختہ و عمدہ مکانات کی تعمیر ات کرنے، ان کو دیدہ زَیب اشیا سے مزین  (Decorateکرنے میں مصروف تھے، قبرکے اندھیروں اور اس کی وَحشتوں سے بے نیازجگمگ جگمگ کرتی قندیلوں اور قمقموں سے اپنے مکانوں کو روشن کرنے میں مشغول تھے ، اَہل و عیال کی عارِضی اُنسیت ، دوستوں کی وقتی مصاحبت اور خدام کی خوشامدانہ خدمت کے بھرم میں قبرکی تنہائی کو بھولے ہوئے تھے۔ مگر آہ! فنا کا بادَل یکا یک گرجا، موت کی آندھی چلی اور دنیا میں تادیر رہنے کی اُن کی اُمیدیں خا ک میں مل کر رہ گئیں ، ان کے مسرتوں اور شادمانیوں سے ہنستے بستے گھرموت نے ویران کردیئے ، روشنیوں سے جگ مگاتے قُصُور (یعنی محلات) سے گھپ اندھیری قبور میں اُنہیں منتقل کر دیا گیا۔ آہ ! وہ لوگ کل تک اَہل وعیال کی رونقوں میں شاداں ومسرورتھے اور آج قبورکی وَحشتو ں اور تنہائیوں میں مغموم ورَنجور ہیں ۔

اَجَل نے نہ کِسریٰ ہی چھوڑا نہ دارا                 اِسی سے سکندر سا فاتح بھی ہارا

Comments

Popular posts from this blog

Tahajjud Ki Namaz Kay Fazail

گرمیوں میں بیماریوں سے محفوظ رہنے کا نہایت آسان نسخہ

کرونا وائرس :‌ بچوں‌ کی حفاظت کے لیے زبردست اقدام